تعارف

ہاشم شاہ معروف رومانوی داستان سسی پنوں کے خالق ہیں۔ آپ 1752ء میں امرتسر میں حاجی محمد شریف کے گھر پیدا ہوئے

تعلیم

آپ کی ظاہری اور روحانی تربیت آپکے والد صاحب نے کی۔ جو آپکے مرشد اور ہادی اور صوفی بھی تھے جنہوں نے 40 حج کیے ہوئے تھے

روحانی فیض

آپکو روحانی فیض آپکے والد صاحب سے انکی زندگی کے آخری لمحات میں ملا۔

مذہبی رنگ

آپ قادری سلسلہ کے پیرورکار تھے۔ جو کہ غوث اعظم سے ملا تھا۔

کتاباں

قصہ سسی پنوں، ہیر رانجھا، سوہنی مہیوال، شیریں فرہاد، گنج الاسرار، دیوان ہاشم، مثنوی ہاشم،

وفات

1821ء میں تھرپال- سیا لکوٹ میں وفات پائی۔

قصہ سسی پنوں

یہ قصہ آپکی شہرت کی وجہ بنا۔ آپ کے مطابق، آدم جام شہر بھنبھور کا راجا تھا۔ وہ بے اولاد تھا۔ اس نے بہت منتیں مانگی تھیں۔ پھر اللہ کی رحمت ہوئی اور شب قدر کی رات ایک چاند جیسی بیٹی پیدا ہوئی۔ جو انتہائی خوبصورت تھی۔ نجومیوں کو بلایا گیا۔ انہوں نے موقع کی مناسب سے سسی نام تجویز کیا۔ انہوں نے بتایا کے عشق کا درجہ کمال پائے گی اور پنوں کے لئے تھل میں رل مر جاۓ گی۔ راجہ یہ سن کر پریشان ہو گیا۔ وزیروں سے مشورہ کیا اور بولا اس سے تو اچھا میں بو اولاد ہی ٹھیک تھا۔ رسوائی سے بچنے کے لئے صندوق میں ڈال کر دریا کی لہروں کے حوالے کر دیا۔دھوبی کپڑے دھو رہا تھا۔ وہ بھی بے اولاد تھا۔ صندوق اے ملا۔ اور سسی کو اس نے پا لیا۔ سسی جوان ہوئی تو رشتے آنے لگے رشتہ داروں میں سے۔ مگر سسے نے انکار کر دیا۔ انہوں نے حسد کیا اور راجہ کو جا کر بولا کہ جو دھوبی کی بیٹی ہے۔ یہ راجہ کے حرم کے قابل ہے۔ بادشاہ نے سپاہی بھیجے تو سسی نے اہنے تعویز سپاہیوں کے ہاتھ بھیج دیے۔ بادشاہ کو وہ دیکھ کر اپنی چھوٹی بیٹی یاد آ گئی اور وہ شرمندہ ہوا۔ وہ اپنے کیۓ پر شرمندہ تھا۔ اس نے سسی کے نام ایک باغ کر دیا۔ وہ باغ میں سیر لیے گئی۔ وہاں دوسرے بادشاہوں اور شہزادوں کی بنائی گئی تصویریں تصویریں آویزاں تھیں۔ ان میں پنوں کی تصویر بھی تھی۔ شہزادی نے مصور کو بلا کر اسکی تفصیل پوچھی کہ یہ کون ہے اور کس جگہ کا شہزادہ ہے؟ وہ بتاتا کی تھل کیچم شہر کا ہے۔ سسی نے تدبیر سوچی۔ اور دریا کے سارےکنارے اپنی نگرانی میں لے لئے۔ اور غلاموں کو حکم دیا کہ کوئی بھی تاجر اسکے حکم کے بغیر یہ کنارہ پار نہ کرے۔ اس کو یقین تھا کہ کیچم شہر کے سوداگر لازمی آئیں گے۔ شہزادی نے انکی بہت عزت کی۔ سوداگروں نے لالچ میں آکر بولا۔ پنوں انکا بھائی ہے۔ سسی نے سب سوداگروں کو پنوں کے آنے تک کی شرط پر قید کروا دیا۔یہ خبر پنوں کے باپ کو پتہ چلی۔

قافلے کے دو سردار بنن اور بنبیا سات سات ہزار انٹوں کے مالک پنوں کو لانے کی شرط پر اجازت لیکر نکلے۔انہوں نے جب سسی کا نقشہ پیش پیش کیا تو پنوں بھی ملنے کے لئے بے تاب ہو گیا۔ اور شہر بھنبھور جانے کا فیصلہ کر لیا۔ سسی بھی پنوں سے ملاقات کے لئے تیار بے تاب تھی۔ پنوں ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑ کر چلا آیا۔ سسی سے ملاقات کے بعد پنوں ماں باپ، بہن بھائیوں سب کو بھول جاتا ہے۔ بھائی پنوں کو لینے نکلتے ہیں۔ اسکا باپ پیچھے نڈھال ہو گیا۔ اور پنوں کا نام لیتے لیتے دنیا فانی سے چلا گیا۔ ادھر اسکے بھائی یہاں آ کر رات شراب کی محفل سجا کر بے ہوشی کے عالم میں پنوں کو لے جاتے۔ اور سسی وہیں بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ جاتے۔ جب دن ابھرتا اور سسی کو ہوش آتی۔ تو وہ سخت گرمی میں انکے پاؤں کے نشانوں کا پیچھا کرتی تھل میں پیچھے بھاگتی۔ سخت گرمی میں پیاس سے نڈھال ہو کر راستے میں گر جاتی ہے۔ اور پنوں کا نام لیتی ہوئی دنیا چھوڑ جاتی ہے۔ پاس ہی عیالی دیکھ رہا ہوتا۔ وہ ریت میں قبر بنا کر دفنا دیتا۔ ادھر جب پنوں کا ہوش آیا تو وہ بھنبھور کیطرف واپس دوڑا۔ اور عیالی سے تازہ قبر کے بارے میں پوچھتا۔ وہ ساری بات بتا دیتا۔پنوں کا کلیجہ سن کر منہ کو آتا۔ وہیں گرتا۔ قبر پھٹتی اور دونوں اندر سما جاتے۔

ہاشم شاہ کی سسی اور دوسرے شاعروں کے قصے

حافظ برخوردار- ان کیمطابق سسی دھوبی کے گھر پلی بڑھی۔ وہاں نجومیوں نے بتایا کہ وہ پنوں سے محبت کریگی۔ تو پھر سسی پنوں کی تلاش میں نکل گئی۔ اس کام میں اس کے باہ نے اس کی مدد کی۔ اور دریا کے کنارے اسکی زیر نگرانی کر دیے۔اور دریا کنارے پنوں سے ملاقات ہوئی جو سوداگر بن کر آیا تھا۔

منشی اندر جیت- مکران کے لوگوں نے جب پنوں کو سسی کی خوبصورتی کے بارے میں بتایا۔تو پنوں اسے دیکھنے آیا اور وہیں کا ہو کر رہ گیا۔ باقی قصہ وہ ایک جیسا لکھتے ہیں۔ صرف ایک بات کا فرق ہے۔ کہ جب سسی تھل میں بھٹک رہی ہوتی تو عیالی کی نیت خراب ہو جاتی۔سسی اس سے بچنے کے لئے اللہ سے دعا کرتی۔ زمین پھٹتی اور سسی اس میں سما جاتی۔

بقول پروفیسر ہرنام سنگھ- ہاشم شاہ نے سب سے بہتر قصہ لکھا۔

ہاشم شاہ کے قصے کی بنیاد ‘ہونی’

ہاشم شاہ صوفی تھے اور تقدیر یعنی ہونی کا قائل تھے۔اور ‘ہونی’ تقدیر کا بہت ذکر کرتے تھے۔

ہاشم شاہ کی سسی اور وارث شاہ کی ہیر

بقول پروفیسر ہرنام سنگھ۔ میرے نزدیک دونوں برابر کے شاعر ہیں۔ پر جو عزت ہم وارث شاہ کو دیتے اسکا پانچوں حصہ بھی ہاشم شاہ کو نہی دیتے۔

ہاشم شاہ دی سسی اور میاں محمد بخش کی سیف الملوک

میاں صاحب نے اپنا استاد مانااور خراج عقیدت ہیش کی۔

عشق کی سچائی

ہاشم شاہ دا سوز بیان

Mystries of human heart and nature were an open book to him. He read sentiment like a prophet. باوا بدھ سنگھ

دیس کی محبت

ہاشم شاہ کو خراج عقیدت

پیارا سنگھ پدم-ہاشم شاہ حقیقت میں پنجابی زبان کا حکمران تھا۔ اس فقیر کی شاہی آج بھی انکی شاعری میں نمایاں ہے۔۔جیسے کوئی کوہ نور کا ہیرا ٹوٹ گیا ہو۔

خلاصہ

بقول عصمت اللہ زاھد- سسی پنجابی زبان کا شاہکار ہے۔ جب تک پنجابی زبان زندہ ہے تب تک ہاشم کی سسی پسند کی جاتی رہے گی۔جس طرح ماضی میں اور اب پسند کی جاتی ہے۔

Published by Oxides of Research and ldeas

A researcher, analyst and ideas developer.

Leave a comment

Design a site like this with WordPress.com
Get started